میری اس بات پر اس افسر نے انتہائی گندی زبان استعمال کی اور میری ڈاڑھی کو اتارنے کے بارے انتہائی غلیظ جملہ کہا جو لکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ میں اور دوسرے افسر سب کچھ سنتے رہے مگر اس کے آگے کوئی بول نہ سکا۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کے درجات مزید بلند کرے۔ آمین! عرض یہ ہے کہ میں ایک سرکاری ادارے میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ملازم ہوں اور الحمدللہ اپنے تمام فرائض نہایت ایمانداری اور فرض شناسی سے ادا کررہا ہوں۔ میرے ذمے پورے محکمے کے بجٹ کو خرچ کرنا شامل تھا۔ محکمے کی ایک میٹنگ میں دفتر کے افسر اعلیٰ نے 1997ء کے ریکاڑ بارے جو دوران شفٹنگ یا مجھ سے پہلے کسی افسر کی نااہلی کی وجہ سے گم ہوچکا تھا‘ پوچھنا شروع کیا اور تقریباً ہر افسر کے ساتھ انتہائی بدتمیزی اور غلیظ زبان استعمال کی۔ جب میری باری آئی تو میں نے انہیں نہایت ادب سے کہا کہ جناب یہ ریکارڈ 1997ء کا ہے جبکہ میری پوسٹنگ 2009ء میں ہوئی ہے۔ میری اس بات پر اس افسر نے انتہائی گندی زبان استعمال کی اور میری ڈاڑھی کو اتارنے کے بارے انتہائی غلیظ جملہ کہا جو لکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ میں اور دوسرے افسر سب کچھ سنتے رہے مگر اس کے آگے کوئی بول نہ سکا۔ میٹنگ کے بعد میں اپنے کمرے میں آکر بہت پریشان ہوا اور ایسی نوکری جس میں سنت رسول ﷺ کی اتنی شدید توہین کی گئی ہو کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوگیا اور اس سلسلے میں میں نےLPR لکھ کر دے دی اگرچہ مجھے میرے ساتھ افسروں نے سمجھایا کہ ایسا نہ کرو لیکن میں بہت پشیمان تھا کہ اس افسر نے میٹنگ میں مجھے بے عزت کیا تو کوئی بات نہیں تھی اس نے سنت رسولﷺ کی توہین کی ہے‘ میں ایسے افسر کے زیراثر ہرگز کام نہیں کروں گا۔ جب میری نوکری چھوڑنے کی درخواست اس کے سامنے پیش ہوئی تو اس نے فوراً ریلیز کرنے کا حکم صادر فرمادیا لیکن جب دو دن بعد میری ذاتی فائل آرڈر کیلئے اس کے پاس گئی تو اس نے فائل کو چار دن کیلئے روک لیا اور مجھے ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا۔ مقررہ دن جب میں ذاتی طور پر پیش ہوا تو اس نے مجھے نوکری چھوڑنے کی وجہ پوچھی حالانکہ وہ مجھ سے پہلے دوسرے ذرائع سے معلوم کرچکا تھا کہ اس کے نامناسب الفاظ کی وجہ سے میں نوکری چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن وہ معصوم بنا رہا اور اس نے کسی بھی طریقے سے نہ تو اپنے الفاط کی معذرت کی اور نہ مجھے احساس دلایا کہ وہ اپنے الفاظ پر شرمندہ/ معذرت خواہ ہے اور آخرکار مجھے ایک بالکل نئے دفتر میں ٹرانسفر کردیا۔محترم حضرت حکیم صاحب! اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔ وہ افسر دفتر سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر مارکیٹ گیا اور اسے وہاں گاڑی سےنکلنا بھی نصیب نہ ہوا اور وہ وہیں بقضائے الٰہی فوت ہوگیا۔ یہ افسر جہاں بھی تعینات ہوا بدتمیزیاں کرتا رہا۔ نوے فیصد لوگ اس کو برے الفاظ سے آج بھی یاد کرتے ہیں۔ (اللہ ہمیں بُری موت سے بچائے)
سود ملا پیسا گھر آیا اور بربادی شروع
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! ہمارے گھر میں ماہنامہ عبقری بہت شوق سے پڑھا جاتا ہے‘ سب گھر والے درس بھی بہت شوق سے سنتے ہیں۔ آپ نے درس میں بتایا تھا کہ اپنے دشمنوں کیلئے بھی دعائیں مانگیں‘ اللہ کا کرم ہے کہ کوئی دشمن نہیں ہے مگر ہمارے کچھ عزیز جن سے ہماری کچھ کم ہی بنتی ہے ایک دن میں سفر میں تھی کہ بس کچھ ذہن میں آیا میں نے ان کیلئے دعائیں کرنا شروع کردیں اور اللہ سے بھی معافی مانگی اور دعا کی جب کچھ دیر بعد گھر پہنچی تو مجھے عجیب سی خوشی محسوس ہوئی‘ ایسے محسوس ہوا جیسے کوئی روشنی سی آئی اور میرے دل میں جیسے اللہ کا نام سنہری رنگ سے نقش ہوگیا ہے۔ اس کے بعد سے میری کبھی نماز نہ چھوٹی۔ نیک کاموں کی طرف دھیان ملا‘ پھر مجھے کوئی بھی چیز پوچھنی ہوتی تو میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اللہ سے پوچھ لیتی اور جیسے مجھے جواب بھی مل جاتا تھا یہاں تک کہ میں کھانے میں مرچ مصالحہ کا بھی اللہ سے پوچھ لیتی ہوں اور بالکل پرفیکٹ رزلٹ ملتا ہے۔ میں کوکنگ کم ہی کرتی ہوں اس لیے اندازہ زیادہ نہیں ہے چیزوں کا لیکن اللہ کا ایسا کرم مجھ جیسی کو مل گیا اور اعمال کا بہت دھیان بھی ملا اوریہ حکم بھی ملا کہ نماز نہیں چھوڑنی۔ یہ سب کچھ ان کو دعائیں دینےسے ملا جو میرے خیرخواہ نہیں تھے۔ بے شک آپ کسی کا بھلا سوچیں گے تو اللہ آپ کا بھلا ضرور کریں گے۔ اگر آپ کسی کا بُرا سوچیں گے تو آپ کے ساتھ بھی بُرا ہی ہوگا۔ یہی مکافات ہے۔
اب میں آتی ہوں سود کے بھیانک اثرات کی طرف۔ میرے ماں باپ ماشاء اللہ نیک ہیں۔ ابو کی ریٹائرمنٹ میں صرف پانچ سال ہیں‘ میرے ابو ایک ادارے میں جاب کرتے ہیں ساری زندگی ہمیں ہر چیز دی ہے ہر خواہش پوری کی ہے‘ ابو نے تین چار سال پہلے کمپنی سے سود پر ’’لون‘‘ لے کر گھر بنوانا شروع کیا۔ نیچے گودام بنوایا اور اوپر گھر لیکن آج تک گھر پورا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ گودام بھی تیار ہے لیکن کرائے پر چڑھتا ہی نہیں ہے۔ گھر میں عجیب سی نحوست آگئی ہے‘ تنگی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ کبھی ہمارے گھر میں لڑائی جھگڑا نہیں ہوا مگر اب ہروقت لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ ہر کوئی پریشان ہے‘ اعمال چھوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ کچھ عرصہ سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ سب کچھ اس سود کی وجہ سے ہے۔(ن، ذ)
سود نے زندگی کو دکھوں سے بھردیا
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ کچھ کمپیوٹر کورسز کیے۔ شادی ہوئی اللہ نے بیٹا دیا۔ایک جگہ نوکری تھی اچھی خاصی تنخواہ بہت اچھا گزارا ہورہا تھا۔ پھر مجھے ایک ادارہ سے نوکری کی آفر آئی اس کی تنخواہ بھی زیادہ تھی مگر وہ کمپنی سودی کاروبار کرتی تھی۔ میں اس کی کوئی پروا نہ کی اور اپنی سابقہ نوکری چھوڑی اور اس کمپنی میں ملازمت شروع کردی۔ مگر وہاں ملازمت شروع کرتے ہی میری نماز میں کمی آگئی اور ایک وقت آیا پانچ وقت باجماعت نماز پڑھنے والا سارا دن کوئی بھی نماز نہ پڑھتا۔ نماز پڑھنا تو دور مجھے نماز کی فکر تک نہ رہی کہ مجھے نماز بھی پڑھنی ہے اور ایک رمضان ایسا بھی آیا کہ میں نے ایک روزہ نہ رکھا۔ میرے گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے‘ گھر کا سکون غارت ہوگیا۔ میرے والدین نے مجھے گھر سے نکال دیا میں اپنے بیوی بچوں کو لے کر دوسرے علاقے میں کرائے کے گھر میں شفٹ ہوگیا۔ دفتری حالات خراب ہوئے اور اس کمپنی نے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ حالات مزید خراب ہوئے تو ایک سکول میں بطور ٹیچر ملازمت کرلی اور وہ بھی صرف 3500ماہوار پر۔ ماہانہ چالیس ہزار تنخواہ لینے والا مجبوراً 3500 پر آگیا۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے میری بربادی کی اصل وجہ صرف اور صرف ’’سودی کمپنی‘‘ میں کام کرنا ہی تھا۔ جب سے سود ملا پیسہ میرے گھر آیا تب سے میری بربادی شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں